پھر بھلانا آسان ہوگا
گورنمنٹ کالج میں لیکچرار ہوں۔ گزشتہ پانچ سال سے ایک لڑکی کو پڑھا رہا ہوں۔ اس کے امتحان ہوچکے تو میرا رابطہ بھی تقریباً ختم ہوگیا۔ مجھے وہ ہر لحاظ سے پسند ہے۔ اس سے اظہار کیا تو وہ سنجیدہ ہوگئی اس نے کہا کہ میں نے تو ایسا کبھی سوچا بھی نہیں اور اگر میرے والدین کو معلوم ہوگا تو وہ بھی بہت ناراض ہوں گے۔ اس کے والدین میری بہت عزت کرتے ہیں۔ میرے گھر والے بھی اس لڑکی سے میری شادی کرنے پر بہت مشکل سے رضامند ہوں گے کیونکہ میرے لیے کئی رشتے ہیں۔ ان میں ایک لڑکی ڈاکٹر بھی ہے لیکن میرا کہیں بھی ہاںکرنے کو دل نہیں چاہتا جبکہ یہ لڑکی جس کا میں نے ذکر کیا کسی بھی صورت میں راضی نہیں‘ میرے لیے اسے بھلانا بے حد مشکل ہورہا ہے۔ (ر۔کراچی)
مشورہ: جب ہم کسی سے ملتے ہیں تو وہ ہمارے ذہن پر اپنا ایک تاثر چھوڑ جاتا ہے جو لوگ اچھے لگتے ہیں یاد بھی رہتے ہیں، آپ کو پورے پانچ سال ہوگئے اس لڑکی سے بات کرتے ہوئے لیکن آپ نے غور کیا کہ اس سے ملنے کامقصد کیا تھا۔ یہی کہ تعلیم دیجائے اگر اسی مقصد کو مدنظر رکھا ہوتا تو موجودہ صورتحال سامنے نہ آتی۔ یہ اچھی بات ہے کہ لڑکی نے اپنے خیالات کا صاف صاف اظہار کردیا ہے۔ آپ کو یقینا بھولنا ہوگا۔ آپ کیلئے اچھی لڑکیوں کی کمی نہیں۔ کسی کے بارے میں بہتر سوچیں گے تب ہی رضامندی بھی ظاہر کرسکیں گے۔ فیصلہ والدین پرچھوڑ دینے سے ہی سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ جب آپ کسی اچھی لڑکی سے منسوب ہوجائیں گے تو اسے بھلانا اور بھی آسان ہوگا۔
مایوس کرتا ہے مفلوج ہونا
ایک زمانہ تھا اپنے خاندان کا سب سے خوبصورت لڑکا ہوتا تھا‘ قسمت عروج پر تھی‘ ملک سے باہر چلا گیا بچپن سے ایک لڑکی سے محبت تھی‘ یہ میری خالہ کی بیٹی تھی مگر جب ہمارے پاس دولت آئی تو والد نے ان لوگوں کو حقیر سمجھنا شروع کردیا اور معمولی سی بات پر بہانہ بنا کر ان لوگوں سے تعلقات ہی ختم کردئیے اور شہر کے امیر ترین لوگوں میں میری شادی کردی۔ ابھی شادی ہوئے چند ہی ماہ گزرے تھے کہ میرا بہت خطرناک حادثہ ہوگیا۔ بیوی پاکستان میں ہی تھی‘ اسے بلانے کی کوشش بھی ادھوری رہ گئی اور مجھے خود وطن واپس آنا پڑا۔ یہاں آکر علاج کروایا لیکن آدھا جسم مفلوج ہوگیا۔ لوگ کہتے ہیں تم تو خوش قسمت ہو جو زندہ بچ گئے ورنہ اس طرح کے حادثات تو جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔ کیا میں تمام عمر مفلوج رہوں گا۔ ڈاکٹروں کی تو یہی رائے ہے۔ شاید میرے مسئلے کا کوئی نفسیاتی حل ہو اور مجھ میں ارادے کے ذریعے ایسی قوت آجائے کہ میں وہیل چیئر سے اٹھ کر چلنے لگوں۔ (عبدالرشید‘ لاہور)
مشورہ: یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ انسانی جسم کی نقل و حرکت دماغ کے تابع ہے جب تک دماغ حکم نہ دے جسم کا کوئی حصہ حرکت نہیں کرتا۔ اگر کسی کے دماغ کا رابطہ اس کے جسم سے کسی نہ کسی حادثے یا چوٹ کے سبب ٹوٹ جائے تو جسم مفلوج ہوجاتا ہے۔ حرام مغز کی باریک تار دماغ سے نکلتی ہے اور ریڑھ کی ہڈی سے ہوتی ہوئی جسم کی نقل و حرکت کو قابو میں رکھتی ہے۔ اگر کسی بھی وجہ سے ریڑھ کی ہڈی متاثر ہو تو نچلا دھڑ متاثر ہوتا ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ حالات خواہ کیسے بھی ہوں انسان کو حوصلہ نہیں ہارنا چاہیے اور بہتری کی امید ضرور رکھنی چاہیے آپ اپنے ڈاکٹر کو دکھاتے رہیں۔ ان کے کہنے کے مطابق دوائیں اور ورزش بھی جو کرسکتے ہوں یا جتنی ممکن ہو کریں۔ جہاں تک قوت ارادی سے کام لے کر چلنے کی بات ہے تو ایسا ان لوگوں کیلئے ممکن ہوتا ہے جن میں جسمانی طور پر بڑا نقصان نہ ہوا ہو۔ اگر حادثے سے آپ کی ریڑھ کی ہڈی متاثر ہوئی ہے تو اس کا علاج اعصابی امراض کے ماہر ڈاکٹر یا ہڈی کے ماہر ڈاکٹر ہی کریں۔ نفسیاتی طور پر تو آپ خود کو مایوسیوں سے بچا کرنارمل زندگی سے قریب کرسکتے ہیں۔
ہمیشہ کیلئے خاموشی
شادی کے پانچ سال بعد بیٹی ہوئی۔ اس کے دو سال بعد ایک اور بیٹی ہوئی۔ اب ایک چھ سال کی ہے دوسری چار سال کی۔ میری صحت بہت خراب رہتی ہے۔ شوہر بیٹے کی آرزو کرتے ہیں۔ ساس انہیں دوسری شادی کا مشورہ دیتی ہیں۔ میں بیان نہیں کرسکتی کہ اس وقت مجھ پر کیا گزرتی ہے۔ وہ اپنی ماں کی بات بہت مسکرا کر سنتے ہیں۔ مجھے بھی احساس دلاتے ہیں کہ ہماری زندگی میں بیٹے کی کمی ہے۔ انہیں میری صحت کی بالکل پرواہ نہیں۔ دراصل میں گائوں کی ہوں‘ تعلیمی لحاظ سے بہت پیچھے ہوں۔ وہ جو کچھ کہتے ہیں‘ سنتی ہوں‘ تکلیف ہوتی ہے تو رو لیتی ہوں۔ وہ لڑکیوں کو تعلیم دلوانے کے خلاف ہیں۔ میں چاہتی ہوں کہ میری بیٹیاں ضرور پڑھیں اور میری طرح سسرال والوں کی باتیں نہ سنیں انہیں معلومات ہوں۔ کوئی خواہ مخواہ شرمندہ نہ کرے مگر بہت خاموش ہوجاتی ہوں۔ میری والدہ بھی آخری عمر میں چپ ہوگئی تھیں‘ کوئی بات کرتا تو جواب نہ دیتیں گم سم رہتیں۔ لوگ کہتے جادو کروا دیا ہے۔ مگر مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بیمار تھیں۔ مجھے خوف بھی ہوتا ہے کہ کہیں میں بھی ان کی طرح ہمیشہ کیلئے خاموش نہ ہوجائوں۔ (عذرا خان‘ چیچہ وطنی)
مشورہ: علم حاصل کرنے کا حق تو سب کو ہے خواہ وہ بیٹی ہو یا بیٹا۔ آپ کے شوہر آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی بچیوں کی تعلیم کے خلاف ہیں۔ یہ جان کر بہت حیرت ہوئی۔ ساس کی باتوں کا خیال نہ کریں‘ شوہر کو اپنے نیک سلوک سے ہم خیال بنائیں اور بیٹیوں کی تعلیم کی اہمیت کا بھی احساس دلائیں۔ بے علم خدا کو پہچان نہیں سکتا اور نہ ہی والدین کے مقام کو سمجھ پاتا ہے نہ اپنے حقوق و فرائض کا پتہ چلتا ہے۔ کامیاب زندگی کیلئے تعلیم حاصل کرنا ضروری ہے۔ عورت کا دین و دنیا کے علم میں کوشش کرنا اور اسے حاصل کرنا اس کی اپنی ذات کے ساتھ اس کے اہل خانہ کیلئے بھی بہت بہتر ہے۔ بیٹیوں کی اچھی تعلیم و تربیت والدین کو بیٹوں کی کمی کا احساس نہیں ہونے دیتی۔ آج کے دور میں تو بیٹیاں بیٹوں سے زیادہ ماں باپ کے کام آتی ہیں۔ اپنی صحت کا خیال رکھنے کے ساتھ والدہ کی بیماری کا خوف خود پر مسلط نہ کریں۔ ان کے حالات کچھ اور تھے آپ کے مختلف ہیں بلکہ آپ جدید دور کی سہولتیں حاصل کرتے ہوئے اپنی صحت بہتر بناسکتی ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں